ڈاکٹر عبدالغنی

سمندر سے نکلے ہوئے چمکتے موتی

اعجازؔ رحمانی کا کلام اس سے پہلے بھی نظر نواز ہوا۔ قطر میں پہلی بار سننے کا موقع ملا اور ان کے وجد اور نغمات سے محظوظ ہوا انہوں نے خاص کر ایک نعت حلقہ ادب اسلامی قطر کے بین الاقوامی مشاعرے میں ایسی سنائی کہ ایمان تازہ ہوگیا، پھر ایک غزل اس انداز سے پڑھی کہ محفل جھوم اٹھی اس کے بعد موصوف کا نعتیہ مجموعۂ کلام ’’چراغِ مدحت‘‘ جستہ جستہ پڑھا تو حسبِ ذیل اشعار نے دامنِ دل اپنی طرف کھینچا۔

عمل سے ہو اگر خالی محبت سرورؐ دیں کی
جِلا دیتے ہوئے بھی آئینہ بے نور لگتا ہے

لازم ہیں دونوں چیزیں مسلمان کے لیے
رب کی عبادت اور اطاعت رسولؐ کی

بے زبانوں کو اہلِ زباں کر دیا
کر کے ترویج اپنے خیالات کی

کرلیا چاند کو تسخیر تو ہم نے اعجازؔ
جادۂ حق کا سفر اب بھی گراں ہے ہم کو

یہ نعتیہ اشعار نہ صرف حدود شریعت میں ہیں بلکہ ختم المرسلینؐ کے انسانی کردار و آفاقی پیغام کی ترجمانی کرتے ہوئے انسان بالخصوص مسلمان کو حضورؐ کے نقشِ قدم پر چلنے کے لیے ہیں۔
ان شعروں میں الفاظ کا صحیح انتخاب تراکیب کی موزوں ترتیب اور مصرعوں کی مناسب تنظیم پائی جاتی ہے اس اہتمام سے جو کلام روبہ اظہار آیا ہے اس میں افکار و خیالات بھی صالح، صحت مند اور بصیرت افروز ہیں۔
نعتیہ اشعار میں عصری حسیات کا رنگ اور تغزل کا آہنگ بھی ہے اعجازؔ رحمانی صاحب کی یہ کاوش صحیح اور مفید سمت و جہت میں ایک اچھی، دلنشین اور پر اثر کوشش ہے۔ توقع ہے کہ تخلیقِ فن میں ان کا اگلا قدم اسی رخ پر ہوگا اور وہ منزل مقصود کی طرف آگے بڑھیں گے۔

فکر و فن کا سرمایہ

اعجازؔ رحمانی کے کلا میں مسرت اور بصیرت دونوں کے عناصر ہیں، سب سے بڑھ کر ان کی قدرتِ بیان اور مہارتِ فن ہے۔ وہ ایک عمدہ غزل گو ہیں، نفاست اور لطافت کے ساتھ شعر کہتے ہیں۔ لیکن ان کی سخن وری محض فنکاری یا بقول جگر کاری گری نہیں ہے، بلکہ اس میں کچھ دردِ دل بھی شامل ہے اور کچھ غمِ زمانہ بھی ہے۔ وہ آج کے شاعر ہیں، ان کی حسیات جدید ہیں، لیکن ان کی جمالیات اخلاقیات سے خالی نہیں ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ موجودہ غزل شکن زمانے میں، جب آزادیٔ غزل تک کی خرافات سامنے آرہی ہیں۔ اعجازؔ رحمانی اپنے ذاتی تجربات اور اجتماعی مشاہدات دونوں کی عکاسی و ترجمانی تغزل کی مسلمہ روایات کی حدود میں تازگی اور طرفگی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔
اعجازؔ رحمانی کے ایک طرف الفاظ و علامات اور طرزِ بیان سے شریعت ٹپکتی ہے تو دوسری طرف عرفانِ حقیقت کا انداز بھی ہے۔ الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے، اگرچہ روانیِ بیان میں بے ساختگی موجود ہے۔ ردیف و قافیے کا جادو بھی ہے اور عام و خاص دونوں قسم کے قارئین کے لیے ایک ایسا تعمیری پیغام بھی جو ترقی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ غزل کا لطیف فن اپنی ریزہ کاری کے باوجود کسی نگینہ سازی کرسکتا ہے اور زمانے کے رجحانات کی آئینہ سامانی بھی۔

ڈاکٹر عبدالغنی
صدر شعبہ انگلش پٹنہ یونیورسٹی
دوحہ قطر۲۲؍اپریل ۱۹۹۵ء