نعتیہ رباعیات

شیرازۂ افکار بہم کرتا ہوں
احساس کو میں صرفِ قلم کرتا ہوں

تاریخ سے کہہ دو مری جانب دیکھے
مَدحِ شہِ ابرارؐ رقم کرتا ہوں

٭

یہ راز حقیقت میں بتایا کس نے
اللہ سے بندوں کو ملایا کس نے

تعلیم محمد کے سوا اے اعجازؔ
انسان کو انسان بنایا کس نے

٭

دنیا کے لیے امن کا نقّارا ہے
یا بابِ کرم نور کا مینارا ہے

لوگوں کو جہالت سے دلاتا ہے نجات
اسلام ہی تہذیب کا گہوارہ ہے

٭

لوگو! یہ زمانے میں جو بیداری ہے
اسلام کی ذہنوں پہ عملداری ہے

ہیں راہنما نقشِ کفِ پائے رسولؐ
انساں کا سفر سوئے خدا جاری ہے

٭

اک آن میں صدیوں کا عمل توڑ دیا
لمحوں نے بھی گھبرا کے سفر چھوڑ دیا

دستِ شہِ ابرارؐ نے کھینچی جو لگام
تاریخ کے رہوار کا رُخ موڑ دیا

٭

اخلاق ہے انسان کی عظمت کا امیں
کردار کے انوار سے روشن ہے جبیں

کیا شان ہے اعجازؔ حبیبِ رب کی
ایسا کوئی انسانوں میں انسان نہیں

٭

لکھتا ہوں میں توصیفِ شہنشاہؐ امم
اس باب میں رکتا ہی نہیں میرا قلم

اللہ کا میں شکر ادا کرتا ہوں
کہتا ہے زمانہ مجھے اعجازؔ رقم

٭

کانٹوں کے بجائے گلِ شاداب ملے
ذرّوں کے عوض گوہرِ نایاب ملے

جس راہ سے گزرے ہیں رسول اکرمؐ
نقشِ کفِ پا صورتِ ماہتاب ملے

٭

ظلمت کو اُجالے کا طلب گار کیا
دلدادۂ تخریب کو معمار کیا

اسلام ہی دنیا میں ہے پہلا وہ نقیب
غفلت سے ہر ایک شخص کو بیدار کیا

٭

افراد کی تنظیم ضروری کردی
انسان کی تعظیم ضروری کردی

اعجازؔ ہر اِک عاقل و بالغ کے لیے
سرکارؐ نے تعلیم ضروری کردی

٭

گر نورِ محمدؐ کا نہ احساں ہوتا
روشن نہ کبھی عالمِ امکاں ہوتا

پیشانیٔ آدم میں نہ ہوتا یہ نور
مسجودِ ملائک نہ یہ انساں ہوتا

٭

دنیا کے طلبگار نہیں ہو سکتے
باطل کے پرستار نہیں ہو سکتے

سرکارؐ دو عالم سے جنہیں نسبت ہے
منت کشِ اغیار نہیں ہو سکتے

٭

اپنائیں بشر اور ملک جس کے اصول
جس ذات پہ ہو وحیِ خدا کا بھی نزول

دیتا ہے یہ قرآن گواہی اعجازؔ
جس میں ہوں یہ اوصاف وہ ہوتا ہے رسولؐ

٭

بیدار کیا ذہن، جگایا احساس
یوں دور کیا اُس نے خرد کا افلاس

ہے کون بتاؤ تو محمدؐ کے سوا
جو ذات ہے تکوینِ دو عالم کی اساس

٭

تقدیر کو تدبیر کا ناخن بخشا
انسان کو انساں کا تعاون بخشا

بوجہل کے سائے سے بچایا کس نے
دنیائے جہالت کو تمدّن بخشا

٭

خوشبوئے شہنشاہ ہدیٰ پھیلی ہے
ہر سمت اُجالے کی ردا پھیلی ہے

ہے تذکرۂ شاہِ اُممؐ کا اعجازؔ
تاریخ کے دامن میں ضیا پھیلی ہے

٭

مدحِ شہِ ابرارؐ ہے میرے لب پر
فائز مجھے حق نے کیا اس منصب پر

ہر شخص اُجالے کا کہاں ہے حقدار
انوار کی بارش نہیں ہوتی سب پر

٭

دم بھر کو اگر فخرِ رسولاںؐ رُک جائے
دھڑکے نہ دلِ عالمِ امکاں رُک جائے

معراج کی شب ہو گئی ثابت یہ بات
چاہے وہ جہاں گردشِ دوراں رُک جائے

٭

گنجینۂ الفاظ و معنی بخشا
سرمایۂ اعجاز بیانی بخشا

اُس رحمتِ عالم کا کرم تو دیکھو
سوکھے ہوئے تالاب کو پانی بخشا

٭

ذہنوں میں یہ احساس جگایا ہم نے
دنیا سے برائی کو مٹایا ہم نے

اعجازؔ شہنشاہِ دو عالمؐ کے طفیل
دنیا ہی نہیں دین بھی پایا ہم

٭

دنیا میں برائی کا جو پرچار کرے
اچھائی سے نفرت کا جو اظہار کرے

بوجہل کا پیرو ہے وہ انساں اعجازؔ
سرکارؐ کی عظمت سے جو انکار کرے

٭

اچھائی رگِ جاں میں سمو دیتا ہے
انبار گناہوں کا ڈبو دیتا ہے

سرکارؐ کی سیرت کا عمل اے اعجازؔ
ہر عیب ہر اِک داغ کو دھو دیتا ہے

٭

عشرت کے تقاضوں کا قرینا سیکھا
زہرِ غمِ حالات کو پینا سیکھا

سرکارؐ کی سیرت نے ہے بخشا وہ شعور
انسان نے ہر حال میں جینا سیکھا

٭

سرکارؐ کا کب لب پہ مرے نام نہیں
واقف ہوں میں ناواقفِ انجام نہیں

ہے پیشِ نظر سیرتِ محبوبؐ خدا
طاعت کے سوا اور کوئی کام نہیں

٭

پہلے تو بشر صاحبِ ایمان بنے
مدّاحِ رسولؐ شہِ ذیشان بنے

اعجازؔ یہ عظمت نہیں ملتی سب کو
ہو جس پہ کرم اُن کا وہ حسّانؓ بنے

٭

لوگو کہو اس قول میں خامی کیا ہے
غم چیز ہے کیا عیشِ دوامی کیا ہے

دنیا کو بتاتے ہیں بلالؓ و سلمانؓ
سرکارِ دو عالمؐ کی غلامی کیا ہے

٭

مدحِ شہِ کونینؐ میں کچھ تو بولو
اُلجھے ہوئے افکار کی گرہیں کھولو

اعجازؔ لکھو نعتِ شہِؐ کون و مکاں
مدحت کا سمندر ہے یہ موتی رولو

٭

بالا ہے ہر اِک فہم سے معیارِ رسولؐ
کونین کی ہر شے ہے طلبگارِ رسولؐ

دیتا ہے گواہی یہ کلامِ برحق
قرآن کی تفسیر ہے کردارِ رسولؐ

٭

تفریق کو ذہنوں سے مٹا دیتا ہے
جامِ مئے توحید پلا دیتا ہے

ایسا ہے کوئی اور محمدؐ کے سوا
جو خون کے پیاسوں کو دعا دیتا ہے

٭

اُس ذات کی ممکن ہی کہاں ہے تمثیل
ہیں نقشِ قدم جس کے فلک کی قندیل

دعویٰ تو ہے اللہ کی ذاتِ اقدس
اِس دعوے کی اعجازؔ محمدؐ ہیں دلیل

٭

یادیں شہِؐ کونین نمو کرتی ہیں
احساس کے زخموں کو رفو کرتی ہیں

کرتا ہوں مدینے کا تصور جب بھی
آنکھیں مری اشکوں سے وضو کرتی ہیں

٭

جس دم بھی مدینے سے ہوا آتی ہے
ذہنوں کے دریچوں میں ضیا آتی ہے

انسان کی عظمت کا اڑاؤ نہ مذاق
اب تک یہی فاراں سے صدا آتی ہے

٭

دنیا میں رکھی جس نے صداقت کی اساس
باطل کو کیا جس کے تدبُّر نے اداس

تہذیب پہ احساں ہے اُسی ہستی کا
انسان کو بخشا ہے تمدّن کا لباس

٭

دنیا کو ہر اِک طور سے سمجھایا ہے
اعجازؔ بھی سرکارؐ نے دکھلایا ہے

تلوار بھی دشمن پہ اٹھائی ہے مگر
اِسلام کو اخلاق سے پھیلایا ہے

٭

ذرّوں میں ستاروں کا قرینہ دیکھا
ہر راہ کو افلاک کا زینہ دیکھا

اعجازؔ چلو ہم بھی انہیں دیکھ آئیں
وہ آنکھیں جن آنکھوں نے مدینہ دیکھا

٭

دنیا کو شریعت کا دیا ہے دستور
مختار بنایا انہیں جو تھے مجبور

مرنے کے بھی لوگوں کو سکھائے آداب
جینے کا بھی بخشا ہے محمدؐ نے شعور

٭

کب دین میں وہ ردّ و بدل کرتے ہیں
جو کام بھی کرتے ہیں اٹل کرتے ہیں

ملتی ہے انہیں مر کے حیاتِ جاوید
سیرت پہ جو احمدؐ کی عمل کرتے ہیں

٭

تفریق کو ذہنوں سے مٹایا کس نے
سینوں میں محبت کو جگایا کس نے

بتلاؤ تو سرکارِؐ دو عالم کے سوا
نفرت کی فصیلوں کو گرایا کس نے

٭