خواجہ رضیؔ حیدر

شعورِ حسانؓ کی آئینہ دار نعتیہ شاعری

اُردو میں نعت گوئی ایک قدیم صنف ِشعر ہے۔ برصغیر میں تقریباً تمام شعراء نے جزوی طورپر اِس صنف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن بعض شعراء نے اُسے کلی طور پر اپنایا جس کی بنا پر نعت گوئی کے ضابطے اور اصول مدون و متشکل ہوئے۔یہ سلسلہ اٹھارویں صدی تک محدود انداز میں جاری رہا لیکن انیسویں اور بیسویں صدی میں نعت گوئی کو اِس قدر فروغ حاصل ہوا کہ بعض ایسے شعراء جن کو غزل گوئی میں کمال حاصل تھا بیک وقت نعت گو کی حیثیت سے بھی متعارف و ممتاز ہوئے۔ اِن شعراء کے ضمن میں امیرؔ مینائی، محسنؔ کا کوروی، آسیؔ غازی پوری اور سیمابؔ اکبر آبادی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ علمائے دین نے بھی اپنے جذبات ِعقیدت کے اظہار کے لیے نعت گوئی کو وسیلہ بنایا اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا احمد رضاؔ خان بریلوی، حافظ خلیل الدین حسن حافظؔ پیلی بھیتی اِس صنف کے حوالے سے رجحان ساز ثابت ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد نعت گوئی کو مزید فروغ حاصل ہوا اور اکثر شعراء نے بہت پُر تاثیر نعت ِ پاک لکھیں۔نعت خوانی کا سلسلہ بھی برصغیر میں قدیم سے رائج تھا لہٰذا نعت گوئی کے ساتھ نعت خوانی بھی فروغ پاتی رہی حتیٰ کہ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں نعت خوانی نجی و سرکاری تقاریب کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی لازم و ملزوم ہوگئی۔ ہم نے اِسی نعت گوئی اور نعت خوانی کی رہنمائی میں اکیسویں صدی میں قدم رکھا ہے لہٰذا آج جہاں نعت گو شعراء کی ایک بڑی تعداد منظر پر موجود ہے وہاں نعت خواں بھی عشقِ مصطفویؐ کا پرچم لیے ہر طرف موجود ہیں۔ کراچی سے جن شعراء نے نعت گوئی کے حوالے سے قومی سطح پر تعارف حاصل کیا اُن میں اعجاز ؔ رحمانی کا نام سرِفہرست ہے۔ انہوں نے فکری اور فنی سطح پر نہ صرف نعت گوئی کے تقاضے پورے کیے ہیں بلکہ اپنی مترنم آواز سے بھی نعت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

اعجازؔ رحمانی بنیادی طور پر معاشرے میں اسلامی انقلاب کے داعی ہیں لہٰذا دعوت و اصلاح کی اہمیت و ضرورت سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ ان کی نعت گوئی میں جہاں رسولؐ سے اظہار عقیدت کا وفور موجود ہے وہاں دعوت و اصلاح کا شعور بھی واضح طورپر دکھائی دیتا ہے۔ غلامیٔ مصطفیٰؐ کی گواہی اُن کا ایک ایک لفظ دیتا ہے لیکن اِس اہتمام کے ساتھ جہاں ایک طرف اُن کے ذاتی جذبات و احساسات کا اظہار ہو وہاں عام مسلمانوں کے لیے بھی اس میں کوئی ایسا معنوی پہلو موجود ہو جو ان کے دلوں میں عشقِ مصطفیٰؐ کی مشعل کو روشن کردے۔

آپؐ نے زندہ کیا مردہ ضمیروں کو حضورؐ
آپؐ کے دور میں انسان کی غیرت جاگی
پہنچے گی بات اُسوۂ خیر الانامؐ تک
دریافت ارتقائے بشر کو اگر کریں
آتے نہ اگر آپ اندھیرے نہیں جاتے
ہوتی نہ شبِ غم کی سحر رحمتِ عالمؐ

وہی ابد کے دیے ہیں وہی ازل کے چراغ
جلائے ہیں مرے آقا نے جو عمل کے چراغ
ذاتِ رسول اکرمؐ گر مہرباں نہ ہوتی
پورے کبھی نہ ہوتے یہ خواب زندگی کے
نعتِ سرکار دو عالمؐ کا تقاضہ ہے یہی
باوضو ہو کر لکھے ہر لکھنے والا حرف حرف
محبت واقعی رکھتے ہیں جو محبوبِ داورؐ سے
ثبوت اپنے عمل سے پیش کرتے ہیں وہ ایماں کا
دمِ تحریر کم سے کم خیال اِتنا ضروری ہے
ہم اُن کی شان میں جو حرف لکھیں معتبر لکھیں
آپؐ کی تعلیمات پر آقاؐ غور کبھی میں نے نہ کیا
مجھ کو ملی اتنی بھی نہ فرصت آپؐ سے میں شرمندہ ہوں
دل میں اگر اثاثۂ حبِّ رسولؐ ہے
ہرگز نہیں ہے بے سر و سامان زندگی

اعجازؔ رحمانی کی نعت گوئی میں التجا و فریاد کا عنصر غالب ہے لیکن وہ ایک سچے موحد کی حیثیت سے مقامِ مصطفیٰؐ کی محدودات سے بھی بخوبی واقف ہیں لہٰذا اُن کے ہاں التجا و فریاد مناجات کی صورت اختیار نہیں کرتی اور نعتِ پاک کی حدود میں ہی رہتی ہے۔ وہ جذبات سے مغلوب ہو کر توحید و رسالت کے درمیاں موجود خطِ فاصل کو پھلانگتے نہیں بلکہ حسنِ احتیاط سے عظمتِ مقامِ مصطفیٰؐ کو نعت کے پیرائے میں لکھتے چلے جاتے ہیں۔ اعجازؔ رحمانی کی نعتیہ شاعری کا اعجاز یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے پیغام کی اصل غایت کو پیش ِنظر رکھ کر انسان کی تمدنی زندگی کو اُسوۂ رسولؐ کے مطابق بنانے کے لیے اپنی فکری توانائیوں کو الفاظ میں اس طرح ڈھالا ہے کہ شاعری کی مقتضیات بھی پوری ہوں۔ انہوں نے اپنی فکر کے اظہار کے لیے نئی نعتیہ زمینیں اِختراع کی ہیں۔ یہ زمینیں نہ صرف دلآویز ہیں بلکہ نعت گوئی کے شایانِ شان ہیں۔ اِن میں موثریت اور کیفیت پورے طور پر موجود ہے۔ تخیل اور فکر کی اِن ندرتوں کو اُجالنے کے لیے انہوں نے تازہ تشبیہوں اور اِستعاروں سے وہی کام لیا ہے جو کام عموماً غزل کے بڑے شعراء لیتے ہیں۔

آپؐ آئے ہو گئی دُنیا تمدّن آشنا
کوئی شے ہوتی نہیں ہے بے سبب آراستہ
پھولوں کو مہک کس کے پسینے سے ملی ہے
روشن مہ و انجم ہیں یہ کس کے کفِ پا سے
آنکھوں سے ادا ہونے لگے شکر کے سجدے
آئے جو نظر دور سے مینارِ مدینہ
اُسوۂ مصطفیؐ سے گریزاں ہو کیوں
سامنے ہیں ترقی کے زینے چلو
اِسی لیے تو خدا نے کہا سراجِ منیر
چراغ ہی سے جہاں میں چراغ جلتا ہے
پیار سے پتھر دل والوں کو آپ نے ہی تسخیر کیا
آپؐ کے خلق سے وار کسی تلوار کا بھی بھرپور نہ تھا
اُس دل کی دھڑکنیں بھی عبادت سے کم نہیں
جس دل میں اضطراب، درِ مصطفیؐ کا ہے
یہ کائنات بنائی گئی ہے جس کے لیے
اُسی کے نور سے یہ کائنات روشن ہے
شہہِؐ اُمم کی غلامی دلیلِ آزادی
غلام کیا جو غلامی کا حق ادا نہ کرے
میں نعت لکھتا ہوں پڑھتا ہوں اِس لیے اعجازؔ
مرا بھی نعت نگاروں میں نام ہو جائے

اعجازؔ رحمانی کے یہاں جذبِ دروں کے ساتھ پختہ گوئی اور بالغ نظری موجود ہے جس کی بنا پر نہ تو کہیں اِبہام پیدا ہوتا ہے اور نہ کہیں لغزشِ بیان و خیال کا گماں ہوتا ہے۔ اُن کی نعتیہ شاعری کے مطالعہ سے ایک اور بات نمایاں طور پر واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ُانہوں نے رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کا بالا ستعیاب مطالعہ کیا ہے جس کی بنا پر اُن کی نعت گوئی میں سیرتِ رسولِ مقبولﷺ کے مختلف پہلو موثر طور پر ظاہر ہوئے ہیں۔ اِس مرحلے پر مجھے یہ بات کہنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا کہ گزشتہ چند عشروں کے دوران ہمارے یہاں جو نعتِ پاک لکھی گئی ہے اُس کا متعدد بہ حصہ غزلیں مشق یا ترنم کی پیدا وار ہے۔ا ِس میں موضوع کا مکمل عرفان اور مطالعہ کی گہرائی موجود نہیں۔ ایسی نعت ِپاک دراصل نعتیہ محافل کے سماعی ردعمل کے نتیجہ میں تخلیق ہوئی ہیں چنانچہ اُن میں پختہ گوئی کا بھی فقدان ہے اور اُن کی ادبی حیثیت بھی متعین نہیں ہے۔ اعجازؔ رحمانی کے ہاں تخیل اور فکر کی بلندی بھی ہے، سلاستِ بیان بھی ہے اور وہ معنوی تہ داری بھی ہے جو کسی بھی قسم کی بڑی شاعری کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اعجازؔ رحمانی کو بھی اپنی اِن صفات کا مکمل اِدراک ہے شاید اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ…

محبوب کبریاؐ کا لکھتا ہوں جب قصیدہ
ہر شعر میں شعورِ حسانؓ بولتا ہے

خواجہ رضیؔ حیدر