خورشید کی دستک سے جو بیدار نہ ہوگی
خورشید کی دستک سے جو بیدار نہ ہوگی
وہ آنکھ اُجالے کی سزاوار نہ ہوگی
خورشید کی دستک سے جو بیدار نہ ہوگی
وہ آنکھ اُجالے کی سزاوار نہ ہوگی
جسم کیا روح کو لذت کشِ آزار کیا
کیا مسیحا تھا کہ جس نے مجھے بیمار کیا
یادوں کی جو رخصت چھاؤں ہوئی من مندر کی انگنائی سے
آنکھوں کے سمندر خشک ہوئے لب روٹھ گئے گویائی سے
خشک ہواؤں کے چلنے سے موسم میں تبدیلی ہے
خون سے جس کو سینچا تھا وہ مٹی اب تک گیلی ہے
اس کا تو غم نہیں کہ مرے خواب جل گئے
اندر کی آگ سے مرے اعصاب جل گئے
بجھ نہ جائے کہیں دل درد کی پروائی سے
لو لگالی ہے چراغِ شبِ تنہائی سے
جذبات کو شرمندۂ اظہار نہ کرنا
اے دل کبھی توہین غمِ یار نہ کرنا
راستے راستا نہیں دیتے
لو اگر نقشِ پا نہیں دیتے
میری زندگی کٹی ہے شب و روز پیش وپس میں
نہ گرفت میں اُجالا نہ چراغ دسترس میں
شہر میں اس کے رنگ ہیں کیا کیا منظر کے پس منظر کے
سڑکیں ساری شیشے کی ہیں لوگ ہیں سارے پتھر کے