رنگ سے، روشنی سے ملتا ہے

رنگ سے، روشنی سے ملتا ہے
جب کوئی زندگی سے ملتا ہے

وہ بڑی خوش دلی سے ملتا ہے
مسکرا کر سبھی سے ملتا ہے

میرا دشمن بھی خوب ہے دشمن
کتنی شائستگی سے ملتا ہے

شہر کا ہو کہ دشتِ وحشت کا
راستا اس گلی سے ملتا ہے

کچھ نہیں اختیار میں اپنے
غم بھی اس کی خوشی سے ملتا ہے

سلسلہ اس کی زلفِ برہم کا
میری آوارگی سے ملتا ہے

سب ہی ملتے ہیں آئینے سے مگر
آئینہ کب کسی سے ملتا ہے

ڈوب جاتا ہے خون میں سورج
جب دیا روشنی سے ملتا ہے

مجھ سے ملتا نہیں کوئی اعجازؔ
جس کو دیکھو اُسی سے ملتا ہے