توبہ کو دیکھ کر مری بے ساختہ گرے

توبہ کو دیکھ کر مری بے ساختہ گرے
ساغر گرا، شراب گری، پارسا گرے

زد میں مکان میرے پڑوسی کا تھا مگر
پتھر کئی اُچٹ کے مرے گھر میں آگرے

دریاؤں کو نہ بارشیں سیراب کرسکیں
پیاسے تھے اس قدر کے سمندر میں جا گرے

مجھ کو رہِ حیات میں چلنا سکھا دیا
سر پر مرے پہاڑ مصیبت کے کیا گرے

اے صاحبِ جمال ذرا احتیاط سے
ہاتھوں سے چھوٹ کر نہ کہیں آئینہ گرے

حیراں ہیں مجھ کو دیکھ کے اس انجمن میں لوگ
شیشے کے گھر میں جیسے کوئی سنگ آگرے

اس بات سے کسی کو بھی ممکن نہیں گریز
رہزن وہیں سے اُٹھے جہاں رہنما گرے

راہِ طلب کا اُن کو بھی اندازہ ہوگیا
جب میرے ساتھ ساتھ مرے ہم نوا گرے

اعجازؔ راہِ عشق سے میں تو گزر گیا
جن کو کوئی سنبھالنے والا نہ تھا، گرے