اک پل اگر جدا ہوں رسالت مآبؐ سے

اک پل اگر جدا ہوں رسالت مآبؐ سے
تنویر روٹھ جائے مہ و آفتاب سے

رحمت ہی لوگ پائیں گے رحمت مآب سے
بارش کرم کی ہوگی کرم کے سحاب سے

ہر عہد آشنا ہے رسالت مآب سے
خوشبو نکل کے پھیل رہی ہے گلاب سے

جب تک عمل سے ہوگی نہ تائیدِ مصطفیؐ
چھٹکارا پا سکے گا نہ دل اضطراب سے

جو لوگ ساتھ رکھتے ہیں مشعل درود کی
وہ روشنی میں کم تو نہیں آفتاب سے

کم ظرف کیا بتائے گا توقیرِ مصطفیؐ
دریا کی بات پوچھ رہے ہو حباب سے

اتنا ہی جانتا ہے وہ شاہِؐ انام کو
جس کو بھی جتنا ربط ہے اُم الکتاب سے

سرکارؐ دو جہاں کی نصیحت کے باوجود
جاگے نہیں ہنوز مسلمان خواب سے

وہ انقلاب جو کہ ہے اسلامی انقلاب
دنیا کا ارتقا ہے اسی انقلاب سے

اعجازؔ کیسے مدحِ نبیؐ میں خلوص ہو
ہے رابطہ ہمارا جہانِ خراب سے