مر کر بھی ترے غم سے سبک دوش نہیں ہوں
میں آج بھی احسان فراموش نہیں ہوں
تحریر ہے سب کچھ مرے ماتھے کی شکن پر
خاموش بھی ہوتے ہوئے خاموش نہیں ہوں
بارِ غمِ ہستی ہے سبب لغزشِ پا کا
مے نوش نہ سمجھو مجھے مے نوش نہیں ہوں
ہر رُخ سے ترا عکس نظر آئے گا مجھ میں
آئینہ ہوں میں آئینہ بردوش نہیں ہوں
پروردۂ گلزار تو میرا ہی لہو ہے
شبنم کی طرح گل سے ہم آغوش نہیں ہوں
حالاں کہ بدن میرا ہے زخموں سے گلابی
پھر بھی مجھے کہتے ہیں گل پوش نہیں ہوں
سنتا ہوں ترے دل کے دھڑکنے کی صدائیں
پھر بھی ہے شکایت ہمہ تن گوش نہیں ہوں
بیگانۂ احساس ہے اس دُور میں دنیا
اعجازؔ یہ میرا ہے کہ بے ہوش نہیں ہوں