کیا دور ہے پوری کوئی خواہش نہیں ہوتی

کیا دور ہے پوری کوئی خواہش نہیں ہوتی
برسات کے موسم میں بھی بارش نہیں ہوتی

کیا شہر کے سب لوگ مجھے بھول گئے ہیں
اب سنگ زنوں کی بھی نوازش نہیں ہوتی

یہ عظمتِ انساں بھی تو لغزش کا سبب ہے
انسان جو ہوتا نہیں لغزش نہیں ہوتی

یہ پھول کسی طور چمن میں نہیں کھلتے
زخموں کی اگر میرے نوازش نہیں ہوتی

انصاف کے ایوان میں خاموش کھڑا ہوں
مجھ سے کسی مجرم کی سفارش نہیں ہوتی

ہیں جتنے یہاں لوگ اناؤں کے پجاری
اتنی تو خدا کی بھی پرستش نہیں ہوتی

کیا فائدہ انصاف کی زنجیر ہلا کر
مظلوم کی اس دور میں پُرسش نہیں ہوتی

وہ پوچھتا رہتا ہے مرا حال تو اکثر
مجھ سے ہی مگر کوئی گزارش نہیں ہوتی

اس دور میں وہ لوگ بھی موجود ہیں اعجازؔ
رکھتے ہیں ہنر اور ستائش نہیں ہوتی