اک قیامت سر گلزار اُٹھا لیتے ہیں

اک قیامت سر گلزار اُٹھا لیتے ہیں
پھول بھی ہاتھ میں تلوار اُٹھا لیتے ہیں

صرف آتا ہے انہیں لوگوں کو جینے کا ہنر
اپنے سر کو جو سرِ دار اُٹھا لیتے ہیں

پارساؤں پہ تو آتا نہیں الزام کوئی
تہمتیں ساری گناہگار اُٹھا لیتے ہیں

حادثہ اُن کے مقابل نہیں آتا کوئی
سنگ جب آئینہ بردار اُٹھا لیتے ہیں

جن میں ہوتا نہیں منزل کی طلب کا جذبہ
راہ میں خود ہی وہ دیوار اُٹھا لیتے ہیں

کوئی الزام نہیں آتا مسیحاؤں پر
ہر اذیت ترے بیمار اُٹھا لیتے ہیں

ہم سے آنگن میں بھی اُٹھتی نہیں دیوار کوئی
لوگ سیلاب میں دیوار اُٹھا لیتے ہیں

چوم لیتی ہے قدم اُن کے زمانے کی خوشی
دکھ مہاجر کا جب انصار اُٹھا لیتے ہیں

ہاتھ ملتا ہوا رہ جاتا ہے طوفان اعجازؔ
لوگ جب عزم کی پتوار اُٹھا لیتے ہیں