پیاری کی خاطر ہم نے سو سو رنگ بھرے افسانے میں

پیاری کی خاطر ہم نے سو سو رنگ بھرے افسانے میں
اک لمحے کی بات نہیں تھی لیکن عمر لگی سمجھانے میں

گلشن کا احوال سنانے روز کوئی آجاتا ہے
تازہ کلیاں رکھ جاتا ہے روز کوئی ویرانے میں

شیشہ ٹوٹے یا دل ٹوٹے دونوں ٹوٹنے والے ہیں
ہم تو ابھی مصروف ہیں اس کو آئینہ دکھلانے میں

اب تو ہوائے شہرِ ستم بھی گرد نہ میری پائے گی
تم نے ذرا سی دیر لگادی زنجیریں پہنانے میں

شبنم کے بھی بس میں نہیں ہیں کانٹے تو پھر کانٹے ہیں
باد صبا کیا ہاتھ ہے تیرا شعلوں کو بھڑکانے میں

بزم میں ساقی اپنے علاوہ سب کے ظرف سے واقف ہے
حسب ضرورت بھردیتا ہے مے خالی پیمانے میں

باغ میں شبنم آخر کب تک پیاس بجھائے پھولوں کی
پل پل جب مصروف ہوں بادل انگارے برسانے میں

راس نہیں آتا ہے پھر بھی اک لمحہ وہ رفاقت کا
کتنے زمانے لگ جاتے ہیں اس لمحے کو آنے میں

ایک دیا اُمید کا روشن کل بھی تھا اور آج بھی ہے
کتنے سورج ڈوب گئے اعجازؔ مرے غم خانے میں