دیکھے تو کوئی شب کے اُجالوں میں سمندر

دیکھے تو کوئی شب کے اُجالوں میں سمندر
کھو جاتا ہے مہتاب جمالوں میں سمندر

ہوگا نہ کبھی خشک مری سوچ کا دریا
کچھ دن جو رہا اور خیالوں میں سمندر

کانٹے بھی سرِ دشتِ جنوں پیاس بجھالیں
ہے قید مرے پاؤں کے چھالوں میں سمندر

موجوں کو ہیں جب چھیڑتی ماہتاب کی کرنیں
انگڑائیاں لیتا ہے خیالوں میں سمندر

اک اشک چھلک جائے تو طوفان اُٹھا دے
رکھتا ہوں میں آنکھ کے پیالوں میں سمندر

حالاں کہ کبھی اُس نے سمندر نہیں دیکھا
کرتا ہے مگر پیش مثالوں میں سمندر

اک چاند سے کیا اس کی ملاقات ہوئی ہے
رہتا ہے ہمہ وقت اُجالوں میں سمندر

اعجازؔ کوئی ظرف کا اعجازؔ دکھا دو
ہے طاق بہت اپنے کمالوں میں سمندر