خوشگوار موسم ہے دُور دل سے رنجش ہے

خوشگوار موسم ہے دُور دل سے رنجش ہے
ہر طرف مدینے میں رحمتوں کی بارِش ہے

عاصیوں کی آنکھوں میں اشک ہے ندامت کے
پاس تو نہیں کچھ بھی آپ کی سفارش ہے

یہ جو اِتنے دلکش ہیں کائنات کے منظر
سرورِ دو عالمؐ یہ آپ کی نوازش ہے

روشنی کا ضامن ہے راستا محمدؐ کا
جو بھی نقشِ پا ہے وہ آفتابِ دانش ہے

مصطفیؐ کی سیرت سے بن گئی ہے یہ صورت
آدمی کی دنیا میں کس قدر ستائش ہے

کیا شعور بخشا ہے بے شعور انساں کو
آگہی کی دولت بھی مصطفیؐ کی بخشش ہے

آپ سرورِ عالمؐ حشر میں بھرم رکھ لیں
صرف میری اتنی سی آپ سے گزارش ہے

میں دعا نہیں کرتا موت کی یہاں اعجازؔ
مجھ کو تو مدینے میں زندگی کی خواہش ہے