جسم پہ اپنے زخم سجانا سب کے بس کی بات نہیں
رُت میں خزاں کی پھول کھلانا سب کے بس کی بات نہیں
پیار کا جذبہ انسانوں میں کم ہے آج بہت ہی کم
نفرت کی دیوار گرانا سب کے بس کی بات نہیں
ہنستے ہوئے پھولوں کو مسلنا کوئی بھی مشکل بات نہیں
انگاروں کو پھول بنانا سب کے بس کی بات نہیں
اپنے چہرے پر چہرے تو لوگ سجا ہی لیتے ہیں
لیکن آئینہ بن جانا سب کے بس کی بات نہیں
بس میں سمندر کے بھی نہیں یہ کام ہے آبلہ پائی کا
پیاس کسی صحرا کی بجھانا سب کے بس کی بات نہیں
یہ تو کام اُسی کا ہے جو عشق کی آگ میں جل جائے
ذرّے سے سورج بن جانا سب کے بس کی بات نہیں
اپنی حفاظت سب کرتے ہیں جتنے لوگ ہیں دنیا میں
سچ کے لیے تلوار اُٹھانا سب کے بس کی بات نہیں
سیلابی دریا سے گزرنا کام بہت ہی مشکل ہے
لیکن اپنی ناؤ جلانا سب کے بس کی بات نہیں
یہ تو ہے اعجازؔ وتیرہ صرف محبت والوں کا
وعدے قسمیں قول نبھانا سب کے بس کی بات نہیں