مٹ گیا غم ترے تکلم سے
مٹ گیا غم ترے تکلم سے
لب ہوئے آشنا تبسم سے
مٹ گیا غم ترے تکلم سے
لب ہوئے آشنا تبسم سے
روشنی نہیں ملتی عارضی ہیولوں سے
منحرف نہیں ہوتے ہم کبھی اصولوں سے
شہر تک تو آپہنچے ہم دیار وحشت سے
اب ہمیں گزرنا ہے آخری قیامت سے
وہ مجھ سے شناسا نہ ہو ایسا بھی نہیں تھا
ملنے کی طرح وہ کبھی ملتا بھی نہیں تھا
رنگِ بے چہرگی عذاب نہ تھا
جب تک آئینہ دستیاب نہ تھا