اک پل اگر جدا ہوں رسالت مآبؐ سے
اک پل اگر جدا ہوں رسالت مآبؐ سے
تنویر روٹھ جائے مہ و آفتاب سے
اک پل اگر جدا ہوں رسالت مآبؐ سے
تنویر روٹھ جائے مہ و آفتاب سے
دیوانگی کو پہلے خرد آشنا کرو
پھر اپنے رخ کو سوئے حبیبؐ خدا کرو
غیر بھی اپنے بن جاتے تھے سیرت ہی کچھ ایسی تھی
میرے آقاؐ شاہِ امم کی عادت ہی کچھ ایسی تھی
زندگی چاہیے تو مدینے چلو
روشنی چاہیے تو مدینے چلو
مستقل اپنے رب سے خوشی مانگ لے
انؐ کے دربار کی حاضری مانگ لے
خورشید کی دستک سے جو بیدار نہ ہوگی
وہ آنکھ اُجالے کی سزاوار نہ ہوگی
جسم کیا روح کو لذت کشِ آزار کیا
کیا مسیحا تھا کہ جس نے مجھے بیمار کیا
یادوں کی جو رخصت چھاؤں ہوئی من مندر کی انگنائی سے
آنکھوں کے سمندر خشک ہوئے لب روٹھ گئے گویائی سے
خشک ہواؤں کے چلنے سے موسم میں تبدیلی ہے
خون سے جس کو سینچا تھا وہ مٹی اب تک گیلی ہے
اس کا تو غم نہیں کہ مرے خواب جل گئے
اندر کی آگ سے مرے اعصاب جل گئے