بجھ نہ جائے کہیں دل درد کی پروائی سے
بجھ نہ جائے کہیں دل درد کی پروائی سے
لو لگالی ہے چراغِ شبِ تنہائی سے
بجھ نہ جائے کہیں دل درد کی پروائی سے
لو لگالی ہے چراغِ شبِ تنہائی سے
جذبات کو شرمندۂ اظہار نہ کرنا
اے دل کبھی توہین غمِ یار نہ کرنا
راستے راستا نہیں دیتے
لو اگر نقشِ پا نہیں دیتے
میری زندگی کٹی ہے شب و روز پیش وپس میں
نہ گرفت میں اُجالا نہ چراغ دسترس میں
شہر میں اس کے رنگ ہیں کیا کیا منظر کے پس منظر کے
سڑکیں ساری شیشے کی ہیں لوگ ہیں سارے پتھر کے
فطرت کے تقاضوں سے مبرا تو نہیں ہوں
انسان ہوں میں کوئی فرشتہ تو نہیں ہوں
رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں
وہ گمرہی کے بھی اسباب بھول جاتے ہیں
توبہ کو دیکھ کر مری بے ساختہ گرے
ساغر گرا، شراب گری، پارسا گرے
جس دن سے اس نے رسمِ دل آزار توڑ دی
میں نے بھی اختلاف کی دیوار توڑ دی
ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
دیا جلا کے سرِ شام چھوڑ آیا ہوں