حادثہ جب بھی کوئی رہ گزر میں ہوگا
حادثہ جب بھی کوئی رہ گزر میں ہوگا
قافلہ اہل محبت کا سفر میں ہوگا
حادثہ جب بھی کوئی رہ گزر میں ہوگا
قافلہ اہل محبت کا سفر میں ہوگا
اس سے نسبت ہے پرانی میری
چاند رکھتا ہے نشانی میری
یہ گل نہیں ہوں گے یہ فضا بھی نہیں ہوگی
جو آج ہوا ہے وہ ہوا بھی نہیں ہوگی
ہیں گھر کے در و بام تماشائی میں چپ ہوں
گویا ہے چراغِ شبِ تنہائی میں چپ ہوں
میری آنکھوں میں خواب ہیں کس کے
کون لایا ہے پھول نرگِس کے
کس کی خاطر ہمک رہی ہے ہوا
شام ہی سے سنک رہی ہوا
نقش بر آب ہوگیا ہوں میں
کتنا کمیاب ہوگیا ہوں میں
خشک دریا پڑا ہے خواہش کا
خواب دیکھا تھا ہم نے بارش کا
ٹھوکریں کھانا ہر اک گام سنبھلتے رہنا
عمر بھر کام مسافر کا ہے چلتے رہنا
کوئی جگنو نہ کوئی مشعل ہے
رقص میں روشنی مسلسل ہے