دیکھے تو کوئی شب کے اُجالوں میں سمندر
دیکھے تو کوئی شب کے اُجالوں میں سمندر
کھو جاتا ہے مہتاب جمالوں میں سمندر
دیکھے تو کوئی شب کے اُجالوں میں سمندر
کھو جاتا ہے مہتاب جمالوں میں سمندر
نہ بجھ سکے گی مری تشنگی سمندر سے
سلگ رہا ہے مسلسل وجود اندر سے
اگر تعلیمِ سرکارؐ دو عالم عام ہو جائے
یہ دنیا اپنی سازش میں ابھی ناکام ہو جائے
صدیوں سے دہر میں تھی پریشان زندگی
آئے حضور ہو گئی آسان زندگی
یوں تو کٹنے کو کٹتی رہی زندگی
جو مدینے میں گزری وہ تھی زندگی
الفاظ ختم ہو گئے عاجز قلم تمام
لیکن ہوئی نہ مدحتِ شاہِؐ امم تمام
ہم سے پوچھے کوئی کہاں ہیں حضورؐ
بندہ و رب کے درمیاں ہیں حضورؐ
سب چراغ ایسے بفیضِ مصطفیؐ روشن ہوئے
جب بھی ان کے پاس سے گزری ہوا روشن ہوئے
زندگی تھی پریشان راحت ملی
اسوۂ مصطفیؐ کی بدولت ملی
میں نعت پڑھ رہا ہوں محمدؐ کی شان میں
لوگو! درود پڑتے رہو درمیان میں