تیرے کرم کا تیری عطا کیسے کوئی انکار کرے
تیرے کرم کا تیری عطا کیسے کوئی انکار کرے
ستّر ماؤں سے جو زیادہ انسانوں سے پیار کرے
تیرے کرم کا تیری عطا کیسے کوئی انکار کرے
ستّر ماؤں سے جو زیادہ انسانوں سے پیار کرے
پیاری کی خاطر ہم نے سو سو رنگ بھرے افسانے میں
اک لمحے کی بات نہیں تھی لیکن عمر لگی سمجھانے میں
وہ لوگ جو احساس کی دولت نہیں رکھتے
دنیا میں کسی سے بھی محبت نہیں رکھتے
ہم راز ستارے نہ کبھی شام کے نکلے
آنسو ہی شبِ ہجر مرے کام کے نکلے
جسم پہ اپنے زخم سجانا سب کے بس کی بات نہیں
رُت میں خزاں کی پھول کھلانا سب کے بس کی بات نہیں
رنگ سے، روشنی سے ملتا ہے
جب کوئی زندگی سے ملتا ہے
دورانِ جستجو تھکن آزار نہ ہو جائے
سایہ کہیں راہ کی دیوار نہ ہو جائے
عشق نے کار بے مثال کیا
ہجر کو موسمِ وصال کیا
چشمِ نم تیری نوازش بھی تو ہوسکتی ہے
دشتِ بے آب میں بارش بھی تو ہوسکتی ہے
حوصلے رات ترے دیدۂ تر کم نکلے
کیا غضب ہے کہ سمندر سے گہر کم نکلے