گردشوں کے اثر سے نکلوں گا
گردشوں کے اثر سے نکلوں گا
جب کفِ کوزہ گر سے نکلوں گا
گردشوں کے اثر سے نکلوں گا
جب کفِ کوزہ گر سے نکلوں گا
اپنے دشمن کے ساتھ شامل ہوں
خود ہی مقتول خود ہی قاتل ہوں
بند میری آنکھوں کے جب بھی باب ہوتے ہیں
اس کا شہر ہوتا ہے اس کے خواب ہوتے ہیں
طنز کو ہنس کے درگز کرنا
یہ تو شعلوں پہ ہے سفر کرنا
غم یہ ہے کہ اب غم کا مداوا نہیں کوئی
زخمی ہیں مرے خواب مسیحا نہیں کوئی
دور کرتی ہے سب ملال ہوا
جب بھی چلتی ہے حسبِ حال ہوا
رنگ اتنا تو مرا خونِ وفا رکھتا ہے
اس کے ہاتھوں کو بھی پابندِ حنا رکھتا ہے
اک قیامت سر گلزار اُٹھا لیتے ہیں
پھول بھی ہاتھ میں تلوار اُٹھا لیتے ہیں
کیا دور ہے پوری کوئی خواہش نہیں ہوتی
برسات کے موسم میں بھی بارش نہیں ہوتی
ہوا ہے حال یہ بارش کی مہربانی سے
زمیں کے زخم ہرے ہوگئے ہیں پانی سے