فطرت کے تقاضوں سے مبرا تو نہیں ہوں
فطرت کے تقاضوں سے مبرا تو نہیں ہوں
انسان ہوں میں کوئی فرشتہ تو نہیں ہوں
فطرت کے تقاضوں سے مبرا تو نہیں ہوں
انسان ہوں میں کوئی فرشتہ تو نہیں ہوں
رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں
وہ گمرہی کے بھی اسباب بھول جاتے ہیں
توبہ کو دیکھ کر مری بے ساختہ گرے
ساغر گرا، شراب گری، پارسا گرے
جس دن سے اس نے رسمِ دل آزار توڑ دی
میں نے بھی اختلاف کی دیوار توڑ دی
ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
دیا جلا کے سرِ شام چھوڑ آیا ہوں
حادثہ جب بھی کوئی رہ گزر میں ہوگا
قافلہ اہل محبت کا سفر میں ہوگا
اس سے نسبت ہے پرانی میری
چاند رکھتا ہے نشانی میری
یہ گل نہیں ہوں گے یہ فضا بھی نہیں ہوگی
جو آج ہوا ہے وہ ہوا بھی نہیں ہوگی
ہیں گھر کے در و بام تماشائی میں چپ ہوں
گویا ہے چراغِ شبِ تنہائی میں چپ ہوں
میری آنکھوں میں خواب ہیں کس کے
کون لایا ہے پھول نرگِس کے