یہی ہے خواب اور ناخوب ہونا
یہی ہے خواب اور ناخوب ہونا
ترا طالب مرا مطلوب ہونا
یہی ہے خواب اور ناخوب ہونا
ترا طالب مرا مطلوب ہونا
دست نازک تو نہیں بار اُٹھانے کے لیے
تم سے کس نے کہا تلوار اُٹھانے کے لیے
علاجِ سرگرانی کر رہا ہوں
میں اپنا خون پانی کر رہا ہوں
اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے
رات میں کس کی بارگاہ میں تھا
سارا عالم مری نگاہ میں تھا
مٹ گیا غم ترے تکلم سے
لب ہوئے آشنا تبسم سے
روشنی نہیں ملتی عارضی ہیولوں سے
منحرف نہیں ہوتے ہم کبھی اصولوں سے
شہر تک تو آپہنچے ہم دیار وحشت سے
اب ہمیں گزرنا ہے آخری قیامت سے
وہ مجھ سے شناسا نہ ہو ایسا بھی نہیں تھا
ملنے کی طرح وہ کبھی ملتا بھی نہیں تھا
رنگِ بے چہرگی عذاب نہ تھا
جب تک آئینہ دستیاب نہ تھا