کس کی خاطر ہمک رہی ہے ہوا
کس کی خاطر ہمک رہی ہے ہوا
شام ہی سے سنک رہی ہوا
کس کی خاطر ہمک رہی ہے ہوا
شام ہی سے سنک رہی ہوا
نقش بر آب ہوگیا ہوں میں
کتنا کمیاب ہوگیا ہوں میں
خشک دریا پڑا ہے خواہش کا
خواب دیکھا تھا ہم نے بارش کا
ٹھوکریں کھانا ہر اک گام سنبھلتے رہنا
عمر بھر کام مسافر کا ہے چلتے رہنا
کوئی جگنو نہ کوئی مشعل ہے
رقص میں روشنی مسلسل ہے
دیکھے تو کوئی شب کے اُجالوں میں سمندر
کھو جاتا ہے مہتاب جمالوں میں سمندر
نہ بجھ سکے گی مری تشنگی سمندر سے
سلگ رہا ہے مسلسل وجود اندر سے
پیاری کی خاطر ہم نے سو سو رنگ بھرے افسانے میں
اک لمحے کی بات نہیں تھی لیکن عمر لگی سمجھانے میں
وہ لوگ جو احساس کی دولت نہیں رکھتے
دنیا میں کسی سے بھی محبت نہیں رکھتے
ہم راز ستارے نہ کبھی شام کے نکلے
آنسو ہی شبِ ہجر مرے کام کے نکلے