جسم پہ اپنے زخم سجانا سب کے بس کی بات نہیں
جسم پہ اپنے زخم سجانا سب کے بس کی بات نہیں
رُت میں خزاں کی پھول کھلانا سب کے بس کی بات نہیں
جسم پہ اپنے زخم سجانا سب کے بس کی بات نہیں
رُت میں خزاں کی پھول کھلانا سب کے بس کی بات نہیں
رنگ سے، روشنی سے ملتا ہے
جب کوئی زندگی سے ملتا ہے
دورانِ جستجو تھکن آزار نہ ہو جائے
سایہ کہیں راہ کی دیوار نہ ہو جائے
عشق نے کار بے مثال کیا
ہجر کو موسمِ وصال کیا
چشمِ نم تیری نوازش بھی تو ہوسکتی ہے
دشتِ بے آب میں بارش بھی تو ہوسکتی ہے
حوصلے رات ترے دیدۂ تر کم نکلے
کیا غضب ہے کہ سمندر سے گہر کم نکلے
گردشوں کے اثر سے نکلوں گا
جب کفِ کوزہ گر سے نکلوں گا
اپنے دشمن کے ساتھ شامل ہوں
خود ہی مقتول خود ہی قاتل ہوں
بند میری آنکھوں کے جب بھی باب ہوتے ہیں
اس کا شہر ہوتا ہے اس کے خواب ہوتے ہیں
طنز کو ہنس کے درگز کرنا
یہ تو شعلوں پہ ہے سفر کرنا