مسکراتا ہوں فاقہ مستی میں
مسکراتا ہوں فاقہ مستی میں
دل کشادہ ہے تنگ دستی میں
مسکراتا ہوں فاقہ مستی میں
دل کشادہ ہے تنگ دستی میں
کیا گفتگو کے ہوئے سارے ہی فن تمام
خاموشیوں کی زد میں ہے شہرِ سخن تمام
خونِ تمنا صرف کیا تھا کل جس کی تیاری میں
آج وہ دستاویز نہیں ہے یادوں کی الماری میں
لوگو! اپنی بربادی کا خود ہی ذمہ دار ہوں میں
زنگ نے جس کو چاٹ لیا ہے اک ایسی تلوار ہوں میں
ممکن نہیں ہے منظرِ مہتاب دیکھنا
آنکھوں کا مشغلہ ہے ابھی خواب دیکھنا
خزاں کے دور میں دونوں بڑے مظلوم ہوتے ہیں
پرندے گھر سے، سائے سے شجر محروم ہوتے ہیں
ابھی مجھ سے بظاہر ہے دور دور ہوا
دیا بجھانے کو آجائے گی ضرور ہوا
کوششِ ضبط کو ناکام کیے دیتے ہیں
میرے آنسو مجھے بدنام کیے دیتے ہیں
خیال و خواب کی منہ بولتی تصویر ہوتے ہیں
کچھ ایسے گھر بھی ہیں ذہنوں میں جو تعمیر ہوتے ہیں
موت کے خواب زندگی سے ملے
یہ اندھیرے بھی روشنی سے ملے