غم یہ ہے کہ اب غم کا مداوا نہیں کوئی
غم یہ ہے کہ اب غم کا مداوا نہیں کوئی
زخمی ہیں مرے خواب مسیحا نہیں کوئی
غم یہ ہے کہ اب غم کا مداوا نہیں کوئی
زخمی ہیں مرے خواب مسیحا نہیں کوئی
دور کرتی ہے سب ملال ہوا
جب بھی چلتی ہے حسبِ حال ہوا
رنگ اتنا تو مرا خونِ وفا رکھتا ہے
اس کے ہاتھوں کو بھی پابندِ حنا رکھتا ہے
اک قیامت سر گلزار اُٹھا لیتے ہیں
پھول بھی ہاتھ میں تلوار اُٹھا لیتے ہیں
کیا دور ہے پوری کوئی خواہش نہیں ہوتی
برسات کے موسم میں بھی بارش نہیں ہوتی
ہوا ہے حال یہ بارش کی مہربانی سے
زمیں کے زخم ہرے ہوگئے ہیں پانی سے
گھبرا کے عافیت کا نشاں ڈھونڈتے رہے
ہم شہر بے اماں میں اماں ڈھونڈتے رہے
مر کر بھی ترے غم سے سبک دوش نہیں ہوں
میں آج بھی احسان فراموش نہیں ہوں
رہتی ہے تعاقب میں جزاؤں کی سزا بھی
خورشید بھی دشمن ہے چراغوں کا ہوا بھی
ہم نے تجدید زندگی کرلی
اپنے دشمن سے دوستی کرلی