اک پل اگر جدا ہوں رسالت مآبؐ سے
اک پل اگر جدا ہوں رسالت مآبؐ سے
تنویر روٹھ جائے مہ و آفتاب سے
اک پل اگر جدا ہوں رسالت مآبؐ سے
تنویر روٹھ جائے مہ و آفتاب سے
دیوانگی کو پہلے خرد آشنا کرو
پھر اپنے رخ کو سوئے حبیبؐ خدا کرو
غیر بھی اپنے بن جاتے تھے سیرت ہی کچھ ایسی تھی
میرے آقاؐ شاہِ امم کی عادت ہی کچھ ایسی تھی
زندگی چاہیے تو مدینے چلو
روشنی چاہیے تو مدینے چلو
مستقل اپنے رب سے خوشی مانگ لے
انؐ کے دربار کی حاضری مانگ لے
اگر تعلیمِ سرکارؐ دو عالم عام ہو جائے
یہ دنیا اپنی سازش میں ابھی ناکام ہو جائے
صدیوں سے دہر میں تھی پریشان زندگی
آئے حضور ہو گئی آسان زندگی
یوں تو کٹنے کو کٹتی رہی زندگی
جو مدینے میں گزری وہ تھی زندگی
الفاظ ختم ہو گئے عاجز قلم تمام
لیکن ہوئی نہ مدحتِ شاہِؐ امم تمام
ہم سے پوچھے کوئی کہاں ہیں حضورؐ
بندہ و رب کے درمیاں ہیں حضورؐ