جب مشیت نے کھلائے گلشنِ طیبہ کے پھول
جب مشیت نے کھلائے گلشنِ طیبہ کے پھول
خار تھے جتنے وہ سارے بن گئے صحرا کے پھول
جب مشیت نے کھلائے گلشنِ طیبہ کے پھول
خار تھے جتنے وہ سارے بن گئے صحرا کے پھول
جس دن سے عام خلقِ رسولؐ خدا ہوا
پھولوں سے آدمی کا ہے دامن بھرا ہوا
کس واسطے بھیجا تھا محمدؐ کو خدا نے
اِنسان کو شائستہ آداب بنانے
ہوتے تو ہیں سیرت کے ہر اِک شہر میں جلسے
ہیں دُور بہت دُور مگر لوگ عمل سے
آیا جو کوششوں سے رسالت مآبؐ کی
میں بات کر رہا ہوں اُسی انقلاب کی
اُس پہ صدقے چرخِ نیلی فام ہے
وہ زمیں جس کا مدینہ نام ہے
دیوار ہے ٹوٹی ہوئی، ٹوٹا ہوا در ہے
اللہ یہ اللہ کے محبوبؐ کا گھر ہے
کوئی غنچہ دہن آیا، کوئی سیمیں بدن آیا
مگر وہ کون ہے بن کر جو خود جانِ چمن آیا
یہ جو انسان کی بڑائی ہے
صدقہ خلقِ مصطفائی ہے
تعلیمِ محمدؐ سے جس گھر میں چراغاں ہے
اُس گھر کا ہر اِک گوشہ فردوس بداماں ہے