گھبرا کے عافیت کا نشاں ڈھونڈتے رہے
گھبرا کے عافیت کا نشاں ڈھونڈتے رہے
ہم شہر بے اماں میں اماں ڈھونڈتے رہے
گھبرا کے عافیت کا نشاں ڈھونڈتے رہے
ہم شہر بے اماں میں اماں ڈھونڈتے رہے
مر کر بھی ترے غم سے سبک دوش نہیں ہوں
میں آج بھی احسان فراموش نہیں ہوں
رہتی ہے تعاقب میں جزاؤں کی سزا بھی
خورشید بھی دشمن ہے چراغوں کا ہوا بھی
ہم نے تجدید زندگی کرلی
اپنے دشمن سے دوستی کرلی
مسکراتا ہوں فاقہ مستی میں
دل کشادہ ہے تنگ دستی میں
کیا گفتگو کے ہوئے سارے ہی فن تمام
خاموشیوں کی زد میں ہے شہرِ سخن تمام
خونِ تمنا صرف کیا تھا کل جس کی تیاری میں
آج وہ دستاویز نہیں ہے یادوں کی الماری میں
لوگو! اپنی بربادی کا خود ہی ذمہ دار ہوں میں
زنگ نے جس کو چاٹ لیا ہے اک ایسی تلوار ہوں میں
ممکن نہیں ہے منظرِ مہتاب دیکھنا
آنکھوں کا مشغلہ ہے ابھی خواب دیکھنا
خزاں کے دور میں دونوں بڑے مظلوم ہوتے ہیں
پرندے گھر سے، سائے سے شجر محروم ہوتے ہیں