ہوتے تو ہیں سیرت کے ہر اِک شہر میں جلسے
ہوتے تو ہیں سیرت کے ہر اِک شہر میں جلسے
ہیں دُور بہت دُور مگر لوگ عمل سے
ہوتے تو ہیں سیرت کے ہر اِک شہر میں جلسے
ہیں دُور بہت دُور مگر لوگ عمل سے
آیا جو کوششوں سے رسالت مآبؐ کی
میں بات کر رہا ہوں اُسی انقلاب کی
اُس پہ صدقے چرخِ نیلی فام ہے
وہ زمیں جس کا مدینہ نام ہے
دیوار ہے ٹوٹی ہوئی، ٹوٹا ہوا در ہے
اللہ یہ اللہ کے محبوبؐ کا گھر ہے
کوئی غنچہ دہن آیا، کوئی سیمیں بدن آیا
مگر وہ کون ہے بن کر جو خود جانِ چمن آیا
یہ جو انسان کی بڑائی ہے
صدقہ خلقِ مصطفائی ہے
تعلیمِ محمدؐ سے جس گھر میں چراغاں ہے
اُس گھر کا ہر اِک گوشہ فردوس بداماں ہے
جدا ہو کر نبیؐ کے سایۂ دامانِ رحمت سے
گزرنا پڑ رہا ہے آدمی کو کس اذیت سے
گزر شعلوں پہ ہو یا چاند یارو! زیرِ پا آئے
کوئی عالم بھی ہو لب پر محمدؐ کی ثنا آئے
درِ خیر الوریٰ تک آگیا ہوں
اندھیرے سے ضیا تک آگیا ہوں