








- آپؐ پر قربان سب ہیں آپؐ کی کیا بات ہے
- آپؐ کے در پہ بہاتے ہیں گنہگار آنسوآپؐ کے در پہ بہاتے ہیں گنہگار آنسو
میں بھی آنکھوں میں لیے بیٹھا ہوں سرکارؐ آنسوآپؐ کے دم سے یہ منظر ہیں رسولِؐ عربیآپ کے ہیں وہ شاہِ اُمم آپؐ کےاپنائے جو شخص بھی سنت رسولؐ کیاپنے دشمن کے دل میں بھی گھر کیجیےاپنے ساتھ مدینے ساری محفل کو لے جاتا ہوںاپنے ہونے کا یقیں ہے نہ گماں ہے ہم کواُتنا ہی بلند اُس کا معیار فضیلت ہےآج کی رات ہے کس قدر محترماجلے جلے سب کے چہرے سب کے دامن پاک صافاخلاق سے، خلوص سے سرکار آپ ؐ نےآدمی کو غم و آلام سے فرصت دے دیارتقائے بشر کا نشاں آپؐ ہیںاُس پہ صدقے چرخِ نیلی فام ہےاس سے نسبت ہے پرانی میریاس کا تو غم نہیں کہ مرے خواب جل گئےاس کی مدحت میں مصروف ہیں آج ہماُس نے انسان کی سچی تعریف کیاُس وقت بھی اخلاقِ نبیؐ پیشِ نظر ہوآسماں حیرت زدہ ہے دیکھ کر دنیا کا رنگاسوۂ خیر البشرؐ ہے زندگی کی روشنیاسوۂ سیدِ ابرارؐ نے دل جیت لیےاسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرےاشکِ غم اپنے دُرِ شہوار ہیںآشنائے نبیؐ لوگ جب ہو گئےاک پل اگر جدا ہوں رسالت مآبؐ سےاِک شعر بھی ہو جائے جو شایانِ محمدؐاِک عمر سے ہوں خاک بسر رحمتِ عالمؐاگر تعلیمِ سرکارؐ دو عالم عام ہو جائےاگر وہاں مری قسمت کا آب و دانہ ہےالفاظ ختم ہو گئے عاجز قلم تماماللہ سے مل جائے اجازت جو سفر کیاللہ کائنات کا واحد کفیل ہےاللہ نے دیے ہیں اسباب زندگی کےآمدِ سرورِ عالمؐ کی بدولت جاگیآمد سے مصطفیٰؐ کی ہر اک شے بدل گئیامن و اخوت عدل کا پیکر مکہ اور مدینہ ہےاُن ہی کے واسطے دنیا بھی رشکِ جنت ہےانسان ملوث تھے کیا کیا اس دنیا کے آزاروں میںانساں کو دہر میں جو پذیرائی چاہیےانساں کی عظمتوں کا ہر امکان ختم ہےاور دل پہ کیا لکھیےآیا جو کوششوں سے رسالت مآبؐ کیایسا کرم ہوا ہے دیارِ رسولؐ میںایک نیا اندازِ تکلّم آقاؐ نے ایجاد کیااے سرورِ شاہِ اُمم آپؐ نے رکھااے میرے رب سب کے خدابات جب تک آپؐ کی ہوتی نہیںبات ہونٹوں پہ ہے آج اُس رات کیبار بار ملتا ہے اِک شعور جینے کابجھ نہ جائے کہیں دل درد کی پروائی سےبحرِ حبِّ مصطفیٰؐ میں غرق ہو کر دیکھنابخشوا دیجیے سرکارؐ گنگاہگاروں کوبرائے حمدِ خدا، ذکرِ مصطفیٰؐ کے لیےبڑی دلیل ہے لوگو! یہ اِرتقا کی دلیلبعثتِ رسولؐ ہو گئیبغیرِ سرورِ کونین کچھ حاصل نہیں ہوتابفیضِ مصطفیٰؐ ہوتی رہے گیبہت سے ہیں جو شوق کوثر و تسنیم رکھتے ہیںپائی ہے اُجالوں کی سند غارِ حرا سےپوچھتے ہو مجھ سے کیا، میرے نبیؐ کی ذات ہےپیروی جس نے کی مصطفیؐ کی ، وہ بشر پارسا ہوگیا ہےپیرویٔ شفیعُِ الوریٰؐ کیجیے ، روشنی ظلمتوں میں جو درکار ہےپیرویٔ شہہِ حجاز کریںپیرویٔ نبیؐ جو کرتے ہیںپیشِ نگاہ اُسوۂ خیرالوریٰؐ تو ہےتخلیقِ کائنات کا منشا تمہیں تو ہوتذکرہ صبح و شام کس کا ہےتعلیمِ محمدؐ سے جس گھر میں چراغاں ہےتقاضہ ہے یہ دانش کا دیانت سے اگر لکھیںتم کو اعجازؔ عزت اگر چاہیےتوبہ کو دیکھ کر مری بے ساختہ گرےتیرے کرم کا تیری عطا کیسے کوئی انکار کرےٹھوکریں کھانا ہر اک گام سنبھلتے رہناجانبِ عرشِ اعظم نبیؐ کا سفرجاؤں کیوں کوئے خیرالبشرؐ چھوڑ کےجب بھی سوئے کوچۂ خیرالبشرؐ جاتا ہے دلجب دُور نگاہوں سے وہ کعبۂ جاں ٹھہرےجب شہر میں رسمِ شہہِ ابرارؐ چلے گیجب مشیت نے کھلائے گلشنِ طیبہ کے پھولجتنے جاتے ہیں سوئے حرم راستےجدا جو لب سے درود و سلام ہو جائےجدا ہو کر نبیؐ کے سایۂ دامانِ رحمت سےجذبات کو شرمندۂ اظہار نہ کرناجز شاہؐ اُمم ناز کے قابل نہیں کوئیجز مصطفیؐ کی ذات کوئی اور تو نہیںجس دن سے اس نے رسمِ دل آزار توڑ دیجس دن سے عام خلقِ رسولؐ خدا ہواجس دن سے محبوب خدا کے، میں نے اُصول اپنائے ہیںجس قدر اِزم بھی ہیں جہاں کے، اُن سے انسا ن کو کیا ملا ہےجس قدر بھی سرورِؐ عالم کے پیروکار ہیںجس کو فردوس آثار کہیے وہ مکاں مصطفی کا مکاں ہےجسم پر پہلے شریعت کا لبادہ چاہیےجسم کیا روح کو لذت کشِ آزار کیاجسم و جاں بیمار ہیں یارو! دوا کرتے رہوجشنِ رسول پاکؐ منانے کا وقت ہےجمالِ مصطفیٰؐ سے کس قدر معمور لگتا ہےجہانِ تیرگی میں روشنی کا انقلاب آیاجہانِ فکر و نظر میں جو یہ اجالا ہےجہاں جہاں بھی چراغ حیات روشن ہےجہاں میں لائقِ توقیر ہے اگر کوئیجو اپنی زندگی میں اسوۂ سرکارؐ رکھتے ہیںجو دل میں حبِّ رسولِؐ انام رکھتے ہیںجو لوگ نفرتوں کا اظہار کر رہے ہیںجو مدینے کی طرف عزمِ سفر رکھتے ہیںجو ہم ذکر خیرِ البشرؐ کر رہے ہیںچاہیے جنت میں گھر میرے حضورؐچراغِ علم جلاتے تھے گفتگو سے رسولؐچراغِ مدحتِ سرکارؐ روشن کر دیا گھر میںچھٹیں تاریکیاں، جاگا مقدر نوعِ انساں کاچھوڑ دی میں نے دنیا کی ہر جستجوچین سے سو جائے گا بیمارِ محبوبؐ خداحادثہ جب بھی کوئی رہ گزر میں ہوگاحبِّ نبیؐ کو دل میں مہمان کر لیا ہےحسنِ شام و سحر محمدؐ ہیںحق کی تبلیغ کا جس میں پہلو نہ ہو ایسے اعلان کو میں نہیں مانتاحکمِ شہہِؐ اُمم کے مطابق بسر کریںحمدِ رب کے لیے مصطفیؐ چاہیےحمد کیا لکھی کہ قسمت کے دریچے کھل گئےحیات کے سیکھنے قرینےختم ہو سکتا نہیں نعتِ نبیؐ کا سلسلہخدا تم کو سدا زندہ رکھے گاخدا کی ذات کا جو مستند حوالا ہےخدا نے جس کی خاطر بزمِ امکاں کو سنوارا ہےخدائی رب کی خدا کی رحمت کہاں نہیں تھی کہاں نہیں ہےخشک دریا پڑا ہے خواہش کاخشک ہواؤں کے چلنے سے موسم میں تبدیلی ہےخنجر کی ہے مجھ کو ضرورت ، اور نہ کسی تلوار کی ہےخورشید کی دستک سے جو بیدار نہ ہوگیخورشید مصطفیؐ نے ہیں ڈھالے قدم قدمخوشگوار موسم ہے دُور دل سے رنجش ہےخیال میں جو رسالت مآبؐ آتے ہیںخیر کے گل، علم کے گوہر دیےخیمہ برائیوں کا نبیؐ نے جلا دیاداخلِ رحمتِ مصطفیؐ ہو گئےدرِ پاک پر جو بسر ہو گئے ہیںدرِ حضورؐ نہیں نالۂ و فغاں کے لیےدرِ خیر الوریٰ تک آگیا ہوںدرِ شاہِ امم تک آگیا ہوںدرد دل کی دوا کر رہے ہیںدرود پڑھ کے اگر کوئی ابتدا نہ کرےدرودِ شہہِؐ بحر و بر ہو رہا ہےدرودوں کی صدا سے گونجتی ہے انجمن کس کیدست نازک تو نہیں بار اُٹھانے کے لئےدنیا سے جدا یا رب اندازِ بیاں دے دےدنیا میں کس سے پوچھیے عظمت رسولؐ کیدوستو! رب سے کوئی اور دُعا مت مانگودونوں جہاں ہیں سائے میں جس کے ، کس کی رحمت آپؐ کی ہےدونوں عالم پہ ہے آپؐ ہی کا کرمدیار سرورِ کونین کا فقیر ہوں میںدیارِ مصطفیؐ سے خلد کی جاگیر ملتی ہےدیدۂ و دل کو بخشا ہے نور آپؐ نےدیکھا ہے بس اِک بار ہی دربارِ مدینہدیوار ہے ٹوٹی ہوئی، ٹوٹا ہوا در ہےدیوار و در کی دیکھیے کیا آن بان ہےدیوانگی کو پہلے خرد آشنا کروذات رسول اکرمؐ میں اخلاق کے ایسے جوہر تھےذاتِ سرورؐ ہے واقعی رحمتذکرِ خدا کے جب ہوئے روشن کہیں چراغذکرِ سرکار دو عالمؐ سے ہیں لب آراستہذکرِ سرکارؐ سے مہکی ہوئی تنہائی ہےذکرِ سلطانِ مدینہ کا جہاں فقدان ہےذکرِ نبیؐ کے جیسے جلاتے ہیں ہم چراغرات میں کس کی بارگاہ میں تھاراستے خلد کے سب شاہ امم آپؐ کے ہیںراستے راستا نہیں دیتےرب اکبر کا فرمان ہےرسولؐ اللہ کی سیرت کو اپنا لے جو مشکل میںرسولِ برحق حبیبِ داوَر ، دُرود تم پر سلام تم پررنگِ بے چہرگی عذاب نہ تھارہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیںروشنی سے عبارت ہے ہر زندگی، کیا تمہیں موت کی تیرگی چاہیےروشنی نہیں ملتی عارضی ہیولوں سےروضۂ رسولؐ پر حاضریروضہ مرے رسولؐ کا گھر روشنی کا ہےرونق بھی وہی دن کی وہی زینتِ شب ہےزبانِ رب ہے زبان اُس کی کلام رب ہے کلام اُس کازباں پر ہر گھڑی صلِّ علیٰ ہےزباں پہ صرف ہیں دعوے مثال کوئی نہیںزخمِ انسانیت کا مداوا ہوا ، غم کے ماروں کو حاصل خوشی ہوگئیزمیں منزل ہے میری اور نہ میری آسماں منزلزندگانی کو وقفِ شریعت کروزندگی تھی پریشان راحت ملیزندگی چاہیے تو مدینے چلوزہے نصیب میرے لب پہ نعت آئی ہےزیارتِ کعبہسارے آقاؤں کے آقاؐ کالی کملی والے ہیںسارے جلوے رسول خدا آپؐ کےسامنے جب وہ درِ خلد نشاں ہوتا ہےسب چراغ ایسے بفیضِ مصطفیؐ روشن ہوئےسب ساکنانِ اہلِ حرم ہیں حضورؐ کےسب کی جو ضرورت ہےسب مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم آپؐ کے ہیںسبحان اللہ سبحان اللہسرکارؐ کا ذکر جو کرتا ہوں اِک کیف سا حاصل ہوتا ہےسرکارؐ کی رحمت کا طلبگار ہوں میں بھیسرورؐ عالم آپ نے آکر ، ظلم کا استیصال کیاسرور عالم پہ ہے قرآن اُترا حرف حرفسفر جانبِ اِرتقا کیجیےسیرت پہ مصطفیؐ کی جب بھی عمل کیا ہےسیرت کا پیغام تو لوگو روز سنایا جاتا ہےسیرت کا ہر پہلو روشن صرف مرے سرکارؐ کا ہےسیرت کے معجزے وہ دِکھائے رسولؐ نےشامل ہے خدا جس مدحت میں وہ مدحت تو سرکارؐ کی ہےشاہِ اُمم کی ایک نظر نے کس کس پر احسان کیاشعلوں کے راستے بھی آساں بنا دیے ہیںشکر ہے اللہ کا میں صاحبِ ایمان ہوںشہر تک تو آپہنچے ہم دیار وحشت سےشہر میں اس کے رنگ ہیں کیا کیا منظر کے پس منظر کےصحنِ حرم میں جنت کے گلزار کی خوشبو آتی ہےصدیاں گزر گئی ہیں جنبش میں ہر قلم ہےصدیوں سے دہر میں تھی پریشان زندگیصرف اِک رب ہے رب کے سوا کون ہےصرف اک شب جو مدینے میں بسر کرتے ہیںطیبہ کی سمت جب بھی نسیمِ سحر گئیطیبہ میں مطمئن دلِ بیتاب ہو گیاظلم کے ایواں کانپ رہے ہیں کفر کی دنیا برہم ہےظلمتوں سے جب انسان گھبرا گئےظلمتیں چھوڑ کر روشنی کی طرفعظمتِ انسان کا ضامن ہے مقامِ مصطفےؐعلاجِ سرگرانی کر رہا ہوںعلم ملا، تہذیب ملی، اسلام ملا ، قرآن ملاعمل نہیں ہے زباں پر ہے صرف نامِ رسولؐغمِ نبیؐ میں جو دل کو نڈھال رکھتے ہیںغیر بھی اپنے بن جاتے تھے سیرت ہی کچھ ایسی تھیفرش سے عرش کی طرف آپؐ نے جب سفر کیافطرت کے تقاضوں سے مبرا تو نہیں ہوںقبلِ حضورؐ بھی دیپ تھے روشن لیکن اِتنا نور نہ تھاقدم قدم انہیں وابستگی شعور سے ہےقیامت تھی برپا قیامت سے پہلےکرم حضورؐ غریب الد یّار ہم بھی ہیںکس کو ہے مرتبہ یہ میسّر، آپؐ ہیں اور کوئی نہیں ہےکس کی خاطر ہمک رہی ہے ہواکس میں ہے یہ جرأت اُس کی عظمت سے انکار کرےکس واسطے بھیجا تھا محمدؐ کو خدا نےکسی صورت بھی کمی جس کی بڑائی میں نہیںکسی کا قول اُس کے سامنے ٹھہرے تو کیا ٹھہرےکفر کے پروردہ ہو کر رہ گئے ششدر تمامکم نہیں حبِّ سرورؐ بہت ہےکہہ دو کہ ٹھہر جائے یہیں وقتِ رمیدہکوئی بیاں کرے گا کیا شان مصطفیؐ کیکوئی جگنو نہ کوئی مشعل ہےکوئی خلقت میں اُن سے نہیں بڑا وہ حبیب خدا اُن کی کیا بات ہےکوئی غنچہ دہن آیا، کوئی سیمیں بدن آیاکوئی مثلِ سرورؐ ذیشان آیا ہی نہیںکوئے خیرالبشرؐ تک آ پہنچےکون ہوگا آپ سے اچھا حضورؐکون ہے وجہِ تخلیقِ کون و مکاں اور کوئی نہیں ہے حضورؐ آپ ہیںکیا سوئے عرش شاہِ ذی شان کا سفر ہےکیا شانِ مساواتِ شہنشاہِؐ اُمم ہےکیا ہے ذکر یہ کس نے شہہِ رسالتؐ کاکیسے مرجھائے گا مزدوروں کی عظمت کا گلابکیوں نہ ہو آقا ہمارے لب پہ مدحت آپؐ کیگر پیشِ نظر اسوۂ سرکارؐ نہ ہوگاگزر شعلوں پہ ہو یا چاند یارو! زیرِ پا آئےگفتگوئے بشر ارتقا تک گئیگنبدِ خضرا کا یہ عالم جمال اندر جمالگھبرا کے اندھیروں سے دعا مانگ رہے ہیںگوشِ عمل سے سنیے ہر آن بولتا ہےلاکھ میں مفلس ہوں استغنیٰ مری فطرت میں ہےلب پہ مدحت جو مصطفیٰؐ کی ہےلوگو! کوئی جواب درِ مصطفیؐ کا ہےلوہا پگھل رہا تھا نبیؐ کی زبان سےلے کے سب اپنے اپنے سفینے چلومٹ گیا غم ترے تکلم سےمجھ پہ اللہ مرے اتنی عنایت کرنامجھ کو توفیقِ ذکرِ نبیؐ مل گئیمجھے کچھ خبر نہیں ہے کہ میں کون اور کیا ہوںمجھے کعبے سے نسبت ہے مجھے نسبت مدینے سےمحبت در گزر، ایثار، اخلاق و مروّت ہےمحشر میں کرم کے وہی حق دار رہیں گےمدحت کے گلابوں کا کرم ہو کے رہے گامدحت کے میں دیپ جلاتا رہتا ہوںمدینے سے واپسیمرے دل کی ہر اک دھڑکن صبا رفتار ہوتی ہےمستقل اپنے رب سے خوشی مانگ لےمستقل روشنی کا پتا مل گیامستقل ہو رہے ہیں کرم پر کرم شام سے صبح تک صبح سے شام تکمشرقی ہو کوئی مغربی ہو وہ جنوبی ہو یا ہو شمالیمشعلِ سیرتِ سرکارؐ جلا رکھی ہےمشکلوں کا اگر کوئی حل چاہیےمصطفیٰؐ پر جو قربان ہےمصطفیؐ کی کوئی مثال کہاںمصطفیؐ کے دیوانے گھر سے جب نکلتے ہیںمظلوم کی گردن پہ تلوار تھی قاتل کیمعجزہ اَخلاق کا ایسا دکھایا آپؐ نےمعیار ولایت کا حقیقت میں یہی ہےملی جب مدینے کی ذیشان منزلمیری آنکھوں میں خواب ہیں کس کےمیری زندگی کٹی ہے شب و روز پیش وپس میںمیرے عمل ہیں وجہِ ندامت آپ سے میں شرمند ہوںمیرے ہونٹوں پر ہے مدحت سیدِ ابرارؐ کیمیرے ہونٹوں پہ ہے بعدِ حمدِ خدا ، مصطفیؐ مصطفیؐ مصطفیؐ مصطفیؐمیں آ تو گیا ہوں درِ مصطفیؐ تکمیں تو کیا کوئی قلمکار نہیں لکھ سکتامیں جب سے آگیا ہوں دیارِ رسولؐ میںمیں جب سے آگیا ہوں دیارِ رسولؐ میں
خود کو بھلا چکا ہوں دیارِ رسولؐ میںمیں چپ کھڑا ہوا ہوں دربارِ مصطفیٰؐ میںمیں غلام سرورِ انبیاءؐ مجھے اپنے کام سے کام ہےمیں نعت پڑھ رہا ہوں محمدؐ کی شان میںمیں نعت لکھ رہا ہوں رسولِ انامؐ کیناداروں کو علم کے موتی، آقاؐ نے انمول دیےنافذ جو محمدؐ کی شریعت نہیں ہوگینبیؐ کے نام سے روشن جو ہے مدینے میںنعت کی فکر مصطفیؐ سے ملینقش بر آب ہوگیا ہوں میںنہ بجھ سکے گی مری تشنگی سمندر سےنہ بجھیں دیے عمل کے یہ دیارِ مصطفیٰؐ ہےنہ فریب دے کسی کو نہ وہ خود فریب کھائےنہ لاتے مصطفیٰؐ پیغام اگر امن و اُخوت کانورِ محمدیؐ جو ازل سے سفر میں ہےہاتھ میں جب سے ان کا دامن ہےہر ایک شے نظر آتی ہے کس قدر روشنہر ایک عہد بفیضِ شہِؐ عرب روشنہر قدم پر وہاں رفعتیں ہیں رفعتوں کا یہ عالم کہاں ہےہر مسلمان کا یہی کردار ہونا چاہیےہر نور ہے وابستہ مدینے کی زمیں سےہم پہ کیوں طنز کرے کوئی جو ہم رکھتے ہیںہم سے پوچھے کوئی کہاں ہیں حضورؐہمارے کام آخر اسوۂ خیرالبشرؐ آیاہوا طلوع حرا سے جو علم کا سورجہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوںہوتے تو ہیں سیرت کے ہر اِک شہر میں جلسےہونٹوں پہ مرے آج اس انساں کی ثنا ہےہیں کون و مکاں صدقۂ سرکارِؐ دو عالمہیں گھر کے در و بام تماشائی میں چپ ہوںہے اسی صورت مرے آقاؐ کی رحمت ساتھ ساتھہے اور کیا جو میں کروں قربان یا رسولؐہے جو ذات شہہِ اُمم خوشبوہے نور کی پڑی ہوئی چلمن جبیں جبیںہے ولادت کا موسم دعا مانگ لووہ جو بتلا گئے ہیں نبیؐ راستاوہ جو محبوبِ ربِ العلا ہے اس کی جانب سفر چاہتا ہوںوہ دھڑکنوں میں چھپا ہوا ہےوہ کہ جس کو منصبِ کون و مکاں بخشا گیاوہ کہ جس کو منصبِ کون و مکاں بخشا گیاوہ مجھ سے شناسا نہ ہو ایسا بھی نہیں تھاوہ نبیؐ جو کہ اُمی لقب ہے علم کا استعارہ وہی ہےوہی اَبد کے دیے ہیں وہی اَزل کے چراغیا رب یہ التجا، یہ دعا ہو میری قبولیادِ شہہِؐ لولاک میں دل اشک فشاں ہےیادوں کی جو رخصت چھاؤں ہوئی من مندر کی انگنائی سےیہ اعتراف ہے مجھ کو گناہگار ہوں میںیہ توفیق بخشی ہوئی ہے خدا کییہ جو انسان کی بڑائی ہےیہ جو ہے صبح و شام کی خوشبویہ چاند ستارے اور سورج ، یہ چرخِ کہن سرکارؐ کا ہےیہ کرم بھی ہے رب کا کرمیہ کرم میرے رب کا نہیں کم، گنبدِ سبز کے سائے میں ہوںیہ گل نہیں ہوں گے یہ فضا بھی نہیں ہوگییہ ہی نہیں کہ خلد میں حقدار جائیں گےیوں تو کٹنے کو کٹتی رہی زندگی
اعجاز رحمانی کی شاعری اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین سے مزین ہے ،تبلیغ دین کا جذبہ ان کی رگ رگ میں بسا ہوا ہے ، شخصیتی پہلو دیکھا جائے تو انہوں نے ہر دور میں مختلف موضوعات پرزمانے کے اعتبار سے اخلاص کے ساتھ شعر و شاعری کا کام کیا ،عظمت کے مینار اور خلفائے راشدین کے کردار اور کارناموں کو نہایت ہی خوبصورتی اور کمال کے ساتھ شاعری میں پیش کیا۔

